آج بھی پاکستان سازشوں میں گھرا ہوا ہے
کالم : سابق ایم پی اے سکینہ شاہین خانملکی سالمیت کے خلاف وطن عزیز میں 70 برس سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ آخر بند ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہا؟
پاکستانی قوم کے جوانوں کو کوئی یہ بتائے کہ پاکستان وہ ملک نہیں ہے کہ جو اس قوم کو وراثت یا جہیز میں ملا ہے اس کے حصول کے لیے ہمارے آباو اجداد کا خون پانی کی طرح استعمال ہوا۔
14اگست 1947کو برصغیر کے مسلمانوں کو ہندو اور انگریزوں سے آزادی تو مل گئی مگر لگتا ہے کہ اس قوم کو ابھی ٹھیک طرح سے اس ملک کی آزادی کی قدر کو سمجھنے کا ڈھنگ ہی نہیں آیا ہے نئی نسل اس بات کو کیا جانے کے اس ملک کو ہم نے کن کن قربانیوں سے حاصل کیا لفظ قربانی یہ نہیں کہ ہم نے کوششیں کی اس ملک کی آزادی کے لیے جانوں کو قربان کیا بلکہ اس ملک کے حصول کے لیے ہماری خواتین کی عزتوں کو لوٹا گیا معصوم بچوں کا قتل عام کیا گیا اور جب قائد اعظم محمد علی جناح نے شاعر مشرق علامہ اقبال خواب پورا کیا تو وہ خواب خون سے ڈوبا ہوا تھا اس خواب کی دیواریں معصوم بچوں اور عورتوں کے خو ن سے رنگ آلودہ تھی۔
اب وہ بزرگ جو فتح یاب ہوئے جو اس حقیقی آزادی کے قدردان اور گواہ تھے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوتے رہے باقی بچی ان کی نسلوں کی نسلیں جن کو آزادی تو کیا اس ملک کی تاریخ کا بھی مطالعہ نہیں ہے۔
آج ہم ان نسلوں کو باآسانی طور پر اس ملک میں دیکھ سکتے ہیں جو صرف پکی پکائی کھا رہے ہیں ایسے نسلوں کو قربانی کی قدروں کا کیا اندازہ ؟
آج ہم اس ملک کی 70ویں سالگرہ کو منانے جارہے ہیں ان ستر سالوں میں جمہوری ادوار میں کس کس انداز سے جمہوریت پر شب خون مارا گیا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
ایک بار بھی کسی جمہوری حکومت کو اس کی مدت کو عزت کے ساتھ پورا کرنے کا موقع نہیں ملا یہ پاکستان کی بد نصیبی ہے کہ اس ملک میں کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ایک مخصوص گروہ مذموم سازشوں کے ذریعے ہمیشہ عوامی نمائندوں کی توہین کرتا رہا۔
میں نے جس قدر نواز شریف کو قریب سے دیکھایا ان کے ساتھ وقت گزارا ان کو ایک شفیق اور ملنسار لیڈر کے طور پر پایا آج اس ملک میں ان کی زات پر لگنے والے الزامات کو دیکھتے ہوئے دل ایک لمحے کو بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ان الزمات میں کہیں کوئی سچائی کا عنصر چھپاہو ملکی آزادی کی ستر سالہ تاریخ میں قوم صرف اس بات کا جواب دے کہ کیا جمہوری ادوار میں ملنے والے اس ملک کے شاہد خاقان عباسی سے قبل کے وزرا ¾ اعظموں میں سے کتنے ہی ایسے تھے جنھوں نے اس ملک میں دودھ کی نہریں بنائی اول تو ان وزرا اعظموں کو اپنی معیادوں کو پورا کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔
میاں نوازشریف کو کہنے کو تو تین بار وزیر اعظم کا منصب ملا مگر کوئی اس بات کو تسلیم کیوں نہیں کرتا کہ انہیں ان تینوں ادوار میں مختلف شر پسند تنظیموں نے کام ہی نہیں کرنے دیا 2013 سے ہی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو ایک دھرنا گروپ نے جس قدر اس ملک میں شور مچایا وہ تمام نیوز چینلوں پر باآسانی دیکھا گیا ہے اس پر ستم ضریفی یہ ہے کہ وزیر اعظم جب نواز شریف تھا تو انہوں نے سب کو ہی دھرنے اور ریلیوں کی اجازت دی حالانا کہ وہ چاہتے تو ان سب کو روک بھی سکتے تھے مگر انہوں نے احتجاج کو سب جماعتوں کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے مکمل اجازت دی اب قوم دیکھ لے کہ ان کے جی ٹی روڑ کے سفر کو کتنے رنگ دیئے جا رہے ہیں وہ ہی جماعتیں اب اس بات پر چیخ رہی ہیں کہ میاں نوازشریف ریلی کیوں نکال رہے ہیں۔
جب میں اس تحریر کو لکھ رہی ہو تو دل بہت رنجیدہ ہے کہ آج بھی میرا پاکستان سازشوں میں گھرا ہوا ہے لوگ اقتدار کے حصول میں اس کی عزت و نفس کی بھی پروا نہیں کر رہے ہیں اور مسلسل ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں صرف اور صرف اقتدار کے حصول کی جنگ ہی دکھائی دے رہی ہے ایک شخص دوسرے شخص کو اقتدار سے اتار کر خود اس کی کرسی پر بیٹھنا چاہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں اس سے زیادہ اچھا حکمران ثابت ہونگا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک کی ستر سالہ تاریخ میں جو حالات اب ہیں ایسے حالات اس ملک میں پہلے بھی آئیں ہیں اس سے بھی بری صورتحال کا سامنا رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اقتدار کی اس جنگ میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے میں لگے ہوئے ہیں اور دنیا کہیں سے کہیں نکل گئی ہے لوگ چاند پر پہنچ گئے اور ہم زمین پر ہی ایک دوسرے سے ٹکرائے ہوئے ہیں۔
محترم عمران خان صاحب اگر آپ کو وزیر اعظم بننے کا اتنا ہی شوق ہے تو وقت کا انتظار کیوں نہیں غلط راستہ کیوں اختیار کر رہے ہیں آپ کا نمائندہ جیت جائے تو جشن اور اگر ہار جائے دھاندلی یہ سبق تو آج کا نوجوان آپ ہی سے سیکھ رہا ہے گزشتہ چار سالوں سے آپ کو صرف اٹھتے بیٹھتے میاں نواز شریف اور شہباز شریف ہی نظر آ رہے ہیں افسوس کہ آپ کو آصف زرداری کیوں نہیں دکھائی دیتے افسوس کہ آپ کو عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین جیسے لینڈ گریبر اور مافیا کے لوگ کیوں نہیں دکھائی دیتے اس وقت آپ پرانے لیٹروں کی ٹیم لیکر نیا پاکستان بنانے تو نکلیں ہیں مگر یہ مت بھولیں کہ جو لوگ رنگ رلیاں منانے آپ کے جلسوں میں جاتے ہیں وہ آپ کو ووٹ نہیں دیتے بے شک اس قوم کو ابھی تک ملک کی آزادی کی قدر و منزلت معلوم نہ ہوسکی ہے مگر یہ قوم اس قدر بھی بے وقوف نہیں ہے کہ اسے دکھائی نہ دے رہا ہوں کہ کون اس ملک کو سنوارنے والا ہے اور کون ہے جو منصب سے ہٹ کر بھی دلوں کا وزیر اعظم بنا ہوا ہے۔
اللہ اس قوم کا حامی و ناصر ہو۔
سابق ایم پی اے سکینہ شاہین خان
sakina_pp137@yahoo.com