ملک میں اس وقت سیاسی بساط کے مہرے تیزی سے تبدیلی کے سفر کو طے کرتے ہوئے آئندہ الیکشن کی جانب گامزن ہیں۔
حکمران جماعت نواز شریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے اور نیب ریفررنسز کی وجہ سے سیاسی طور پر مشکل ترین حالات سے دوچار ہے عدلیہ اور فوج کے ساتھ محاذ آرائی کی سیاست نے (ن)لیگ کو نہ صرف اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیا ہے بلکہ آئندہ الیکشن سے قبل انکی صفوں میں پڑنے والی دراڑوں کا فائدہ اُنکی سیاسی مخالف قوتوں کو پہنچ رہا ہے اس پیدا شدہ صورتحال کو سامنے رکھ کر علاقائی سطح پر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی صف بندی کا آغاز کر دیا ہے۔
نئی حلقہ بندیوں نے بھی کئی سیاسی شخصیات جو آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش مند ہیں انہیں نئے ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے بظاہر آئندہ الیکشن میں دو بڑی سیاسی جماعتوں (ن)لیگ اور پی ٹی آئی ہی ہر انتخابی حلقے میں مد مقابل نظر آ رہی ہیں۔
بورے والا میں حلقہ این اے167کو این اے 162جبکہ پی پی 232کو229 اور پی پی 233 کو 230کا نام دیدیا گیا ہے جس میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی اور تحریک لبیک یا رسول اللہ نے بھی آئندہ الیکشن کے لیے میدان میں آنے کے لیے مضبوط امیدواروں کی تلاش شروع کر دی ہے۔
موجودہ (ن)لیگی منتخب ارکان اسمبلی کے مابین جاری سردجنگ کی وجہ سے مقامی سطح پر حکمران جماعت اندرونی خلفشار کا شکار نظر آ رہی ہے موجودہ لیگی ایم این اے چوہدری نذیر احمد آرائیں جو آئندہ الیکشن میں بھی(ن)لیگ کے متوقع امیدوار ہیں اُنکے اپنی ہی جماعت کے ایم پی اے چوہدری ارشاد احمد آرائیں کے ساتھ اختلافات زبان زد عام ہو چکے ہیں چوہدری نذیر احمد آرائیں نے سابقہ الیکشن میں اپنی ہی جماعت کے سیاسی حریف نسیم شاہ گروپ سے اپنی قربت بڑھا کر ایم پی اے چوہدری ارشاد احمد آرائیں سے دوریاں پیدا کر لی ہیں اور وہ پی پی229سے ایم پی اے چوہدری محمد یوسف کسیلیہ کے علاوہ پی پی 230میں نسیم شاہ گروپ کے متوقع امیدواران صوبائی اسمبلی سردار خالد محمود ڈوگر اور معروف سماجی شخصیت رانا طاہر کریم سے اپنی قربت بڑھا رہے ہیں۔
گگومنڈی حلقہ پی پی229آئندہ الیکشن سے قبل امیدواروں کی بہتات کی وجہ سے توجہ کا مرکز بن چکا ہے موجودہ ایم پی اے چوہدری محمد یوسف کسیلیہ کے علاوہ (ن)لیگ ہی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین ضلع کونسل پیر غلام محیی الدین چشتی کے بھتیجے پیر ہمایوں افتخار چشتی،چوہدری محمد یوسف کسیلیہ کے قریبی ساتھی اور علاقہ کی بااثر سیاسی شخصیت ملک افتخار احمد اعوان،بورے والا سے (ن)لیگ کے ایم پی اے چوہدری ارشاد احمد آرائیں کے بیٹے چوہدری عمران ارشاد،ایم این اے چوہدری نذیر احمد آرائیں کے دست راست یوسی چیئرمین چوہدری محمد اسحاق،چوہدری نذیر احمد آرائیں کے قریبی عزیز چوہدری ساجد شریف آرائیں،نسیم شاہ گروپ سے تعلق رکھنے والے یوسی چیئرمین نثار احمد ولیکا کے علاوہ پی ٹی آئی کی جانب سے سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد جٹ کی صاحبزادی عارفہ نذیر جٹ یا عائشہ نذیر جٹ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق صوبائی وزیر چوہدری محمود اختر گھمن خود یا اُنکے بیٹے عثمان محمود گھمن آئندہ الیکشن کے لیے عوامی رابطہ مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔
(ن)لیگ سے تعلق رکھنے والے سات امیدواروں کا اس حلقہ سے میدان میں آنا علاقہ کے ووٹرز کے لیے موضوع بحث بن چکا ہے۔
عوامی حلقوں کے مطابق نئی حلقہ بندیوں سے (ن)لیگ کے دونوں مضبوط امیدواروں چوہدری محمد یوسف کسیلیہ اور پیر ہمایوں افتخار چشتی کو نقصان پہنچے گا کیونکہ جو دیہات اس حلقہ سے الگ ہوئے ہیں وہاں ان دونوں امیدواروں کا اچھا خاصا ووٹ بنک تھا جس سے اب یہ محروم ہو گئے ہیں اس حلقہ کا فیصلہ کن علاقہ ٹو بی آر تمام امیدواروں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
گگومنڈی سے موجودہ ایم پی اے چوہدری محمد یوسف کسیلیہ کے بڑے اتحادی اور سپورٹر ملک افتخار احمد اعوان کے میدان میں آنے سے وہ اس حلقہ کی سیاست پر بہت زیادہ اثر انداز ہونگے کیونکہ اس حلقہ میں اُنکا ووٹ بنک اور اُنکی سیاسی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور وہ آئندہ الیکشن کے لیے مضبوط امیدوار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسی حلقہ میں ٹو بی آر سے (ن)لیگ ہی سے تعلق رکھنے والے نوجوان سیاسی شخصیت یوسی چوہدری محمد اسحاق آرائیں نا صرف ٹو بی آر بلکہ دیگر شامل ہونے والے دیہات میں بھی اپنا خاصا سیاسی اثر رسوخ رکھنے اور عوامی مقبولیت کی بنا پر ایک مضبوط امیدوار ہیں۔
آرائیں برادری ہی سے ایم پی اے چوہدری ارشاد احمد آرائیں کے بیٹے چوہدری عمران ارشاد آرائیں بھی اس حلقہ سے متوقع امیدواروں میں شامل ہیں چوہدری ارشاد احمد آرائیں نے گذشتہ ساڑھے چار سالہ دور اقتدار میں ناصرف اپنے صوبائی حلقہ بلکہ پورے قومی اسمبلی کے حلقہ میں سیاسی طور پر اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں اور حلقہ پی پی229 میں عرصہ ڈیڑھ دو سال سے اُنکے بیٹے چوہدری عمران ارشاد آرائیں کی عوامی رابطہ مہم سے اُنکی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور وہ ایک مضبوط سیاسی اکائی کے طور پر سامنے آ چکے ہیں۔
چوہدری نذیر احمد آرائیں کے قریبی عزیز چوہدری ساجد شریف آرائیں بھی اسی حلقہ سے امیدوار ہیں اگر اس حلقہ میں صرف ایک آرائیں امیدوار متفقہ طور پر سامنے آ گیا تو مدقابل کسی بھی امیدوار کو انتہائی ٹف ٹائم دے گا اس حلقہ میں سیاسی جماعتوں کا نظریاتی ووٹ صرف 8 سے 10 فیصد ہو گا باقی ووٹ مقامی برادریوں،دھڑوں اور علاقائی گروپوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی وزیر چوہدری محمود اختر گھمن اپنی سیاست کو اس حلقہ میں دوبارہ زندہ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اس میں انہیں کہاں تک کامیابی ملتی ہے اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پی ٹی آئی جو دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے اس حلقہ میں ضمنی الیکشن کے دوران سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد جٹ کی بیٹی عائشہ نذیر جٹ نے بھر پور الیکشن لڑا اور مدمقابل امیدوار یوسف کسیلیہ کی طرف سے تمام تر سرکاری وسائل و سرکای مشینری کے استعمال کے باوجود انہوں نے چوہدری محمد یوسف کسیلیہ کو دن میں تارے دکھا دئیے تھے اور صرف ایک ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئیں تھیں یہ حلقہ سب سے زیادہ عائشہ نذیر جٹ کا فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے جہاں سے ذرائع کے مطابق اُنکی چھوٹی بہن عارفہ نذیر جٹ امیدوار ہو سکتی ہیں۔
نئی حلقہ بندی کے بعد اس حلقہ کے جو دیہات علیحدہ ہو کر دوسرے حلقہ میں شامل ہوئے ہیں ان دیہات میں 70فیصد نذیر جٹ گروپ کا ووٹ تصور کیاجاتا تھا جس کا ان انہیں نقصان ہو گا۔
تاہم چوہدری محمد یوسف کسیلیہ اور پیر ہمایوں افتخار چشتی کے لیے یہ نیا حلقہ کسی طور پر بھی موزوں قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس حلقہ سے اگر پی ٹی آئی کے ضلعی صدر چوہدری خالد محمود چوہان کو ٹکٹ دے دیا جاتا ہے اور این اے162میں عائشہ نذیر جٹ امیدوار آ جاتی ہیں تو بہت مضبوط پینل تصور کیا جاتا ہے لیکن چوہدری خالد محمود چوہان کسی صورت میں بھی این اے162کو چھوڑ کر اس صوبائی حلقہ سے امیدوار بننے کو تیار نہیں اور اُنکی تمام تر جدوجہد این اے 162کے ٹکٹ کے حصول کے لیے جاری ہے۔
پی پی230 میں اس وقت سب سے مضبوط ترین امیدوار (ن)لیگ کے ایم پی اے چوہدری ارشاد احمد آرائیں کو سمجھا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے طرز سیاست اور کرپشن سے پاک سیاست کی وجہ سے اپنے حلقہ میں ہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کے حلقہ میں بھی اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے اور وہ فیورٹ امیدوار ہیں اگر پارٹی نے اُنکے سیاسی مخالفین کے کہنے پر انہیں نظر انداز کیا تو وہ آئندہ الیکشن کے لیے اپنی راہیں (ن)لیگ سے جدا کرکے نیا سیاسی پلیٹ فارم جوائن کر سکتے ہیں جو (ن)لیگ کے لیے بہت بڑا سیاسی دھچکا ثابت ہو گا۔
اسی حلقہ سے (ن)لیگ کی جانب سے نسیم شاہ گروپ کے امیدوار سردار خالد محمود ڈوگر اور معروف سماجی شخصیت رانا طاہر کریم بھی متوقع امیدواروں میں شامل ہیں سردار خالد محمود ڈوگر نے ہر حال میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے جسے نسیم شاہ گروپ کے علاوہ موجودہ این اے چوہدری نذیر احمد آرائیں کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے جبکہ رانا طاہر کریم پارٹی کی جانب سے ٹکٹ ملنے کی صورت میں ہی الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حلقہ پی پی 230میں پی ٹی آئی کی جانب سے بھی ابھی تک چار امیدوار سامنے موجود ہیں۔
جن میں بلدیہ بورے والا کے اپوزیشن لیڈر سابق تحصیل نائب ناظم غلام مصطفےٰ بھٹی،سٹی صدر پی ٹی آئی ملک فاروق احمد اعوان،سابق ایم پی اے سردار خالد سلیم بھٹی(مرحوم) کے بیٹے احسن سردار بھٹی اور سابق ٹکٹ ہولڈر حاجی شہباز احمد ڈوگر شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کی ممبر سازی مہم میں غلام مصطفےٰ بھٹی بہت زیادہ متحرک نظر آ رہے ہیں جبکہ ملک فاروق اعوان بھی اپنی بساط کے مطابق ممبر سازی مہم چلا رہے ہیں اگر ان امیدواروں کا موازانہ کیا جائے تو تجزیہ نگاروں کے مطابق غلام مصطفےٰ بھٹی مضبوط امیدوار ثابت ہو سکتے ہیں تاہم پارٹی کی طرف سے کس کو ٹکٹ دیا جاتا ہے یہ کہنا ناممکن ہو گا۔
این اے162سے پی ٹی آئی کی مضبوط ترین امیدوار عائشہ نذیر جٹ کو سمجھا جا رہا ہے تاہم ضلعی صدر چوہدری خالد محمود چوہان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا این اے162میں نئے شامل ہونے والے دیہات میں چوہدری خالد محمود چوہان کا ووٹ بنک بہت زیادہ ہے اور اس لحاظ سے وہ بھی ایک مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں لیکن دوسری جانب چوہدری نذیر احمد جٹ جو کہ جعلی ڈگری کیس میں 62ون ایف کے تحت نواز شریف کی طر تاحیات نااہلی کے فیصلہ کی زد میں آنے کے بعد اپنی بیٹی کو اس سیاسی دھارے میں شامل رکھنا چاہتے ہیں وہ پی ٹی آئی کے نظریات کی ہمیشہ ہی نفی کرتے نظر آئے ہیں اور انہیں یہ زعم ہے کہ پارٹی اُنکی مرہوں منت ہے انہیں پارٹی کی ضرورت نہیں ذاتی طور پر وہ چوہدری برادرن کے گروپ سے رابطے میں ہیں اور حلقہ میں اپنی مرضی کے برعکس ہونے والے پارٹی فیصلوں کو ویٹو کرکے آزاد یا جنوبی پنجاب اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ سکتے ہیں انکی اس سوچ کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ورکرز اُن سے شدید خفا ہیں۔
وہ پی ٹی آئی ورکرز یا عہدیداران کے ساتھ بھی رابطہ نہیں کرتے کیونکہ وہ خود کو ضلع وہاڑی کا قائد اعظم سمجھتے ہیں اور دو یا تین حلقوں سے اپنے ہی امیدوار لانا چاہتے ہیں۔
اگر پارٹی خالد محمود چوہان کو ٹکٹ دے دیتی ہے تو وہ نذیر جٹ کسی صورت بھی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے نہیں ہونگے آئندہ الیکشن میں بلاشبہ پی ٹی آئی کا ووٹ بنک زیادہ ہو گا لیکن پارٹی ٹکٹوں کے فیصلے کہاں تک درست ہوتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
پیپلز پارٹی اس حلقہ سے خاتون راہنما صوبائی فنانس سیکرٹری شگفتہ چوہدری کو امیدوار لا سکتی ہے جبکہ تحریک لبیک یارسول اللہ نے ابھی اپنے متوقع امیدوار ظاہر نہیں کیے۔
آئندہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹیں نہ ملنے کی صورت میں انہی امیدواران میں سے اکثر دیگر جماعتوں یا آزاد حیثیت سے میدان میں موجود ہونگے آنے والے دنوں میں (ن) لیگ کے سیاسی گراف میں مذید کتنی کمی آتی ہے یہ نیب کے متوقع فیصلوں سے مشروط سمجھا جا رہا ہے۔